تاریخ اسلام کا پہلا خود کش حملہ
یکم محرم الحرام شہادت عمر رضی اللہ عنہ
مدینہ پاک کی پر نور فضاء ھے 27 ذوالحجہ 23 ھجری بدھ کا دن ھے فجر کی نماز کا وقت ھو چکا ھے مسلمانوں کا وہ عادل خلیفہ جس کی حکومت
کا دائرہ کار تقریباﹰ آدھی دنیا پر ھے اور جس کا نام سن کر کفار کے پسینے چھوٹ جاتے ھیں یعنی حضرت سیدنا عمر فاروق رضى الله عنہ لوگوں کو فجر کی نماز کے لئے جگاتے ھوئے مسجد نبوی میں تشریف لے جاتے ھیں لوگ نماز کے لئے آرھے ھیں اور اب فجر کی جماعت کا وقت ھوچکا ھے چنانچہ حضرت فاروق اعظم نماز کی امامت کے لئے مصلے پر کھڑے ھو کر نماز شروع کرتے ھیں اتنے میں محراب میں چھپا بیٹھا ایک بدبخت شخص جس کا نام ابو لؤلؤ فیروز ھے اور جو مجوسی( آگ کو پوجنے والا) ھے آپ پر خنجر کے ذریعے حملہ کردیتا ھے اور آپ کے پیٹ پر خنجر سے شدید وار کرکے آپ کو زخمی کردیتا ھے جب دوسرے صحابہ کرام یہ صورتحال دیکھتے ھیں تو اس حملہ آور کو پکڑنے کے لئے آگے بڑھتے ھیں تو وہ کئی صحابہ کو زخمی کردیتا ھے بالآخر جب اس کو قابو کیا جاتا ھے تو وہ بد بخت وھی خنجر اپنے آپ کو مار کر خود کشی کرلیتا ھے
حضرت سیدنا فاروق اعظم شدید زخموں کی وجہ بے ھوش ھوجاتے ھیں اور اسی حالت میں آپ کو گھر لایا جاتا ھے جب آپ کو ھوش آتا ھے تو آپ پوچھتے ھیں کہ مجھ پر حملہ کرنے والا کون تھا جب آپ کو بتایا جاتا ھے کہ وہ مسلمان نہیں بلکہ مجوسی تھا آپ اس بات پر الله کا شکر ادا کرتے ھیں کہ مجھ پر حملہ کرنے والا مسلمان نہیں
حضرت سیدنا فاروق اعظم شدید زخمی ھوچکے تھے چنانچہ تین دن بعد یکم محرم الحرام کو آپ نے جام شھادت نوش فرمایا
شھادت فاروق اعظم کے اس واقعے سے یہ بات روز روشن کی طرح ظاہر ھوگئی کہ مسجدوں میں خودکش حملے کرکے مسلمانوں کو شھید کرنا کس کی ایجاد ھے اور حملہ کرنے والا کون تھا اور جس پر حملہ کیا گیا وہ کون تھا ....
ذرا غور کیجئے.........